حرفِ آغاز

دہشت گردی

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

          ہمارے ملک ہندوستان کو بجا طورپر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز حاصل ہے، جمہوریت کی مستحکم وپائیدار روایت کے سبب کوئی بھی طاقت مطلق العنان نہیں ہوسکتی، اس کے باوجود کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جزوی واقعہ یا فرد کے ناروا اور ناپسندیدہ عمل کو سامنے رکھ کر پورے فرقہ کو نشانہ بنادیا جاتا ہے، یہ روش اور وطیرہ کبھی سیاسی حکمت عملی، کبھی سرکاری افسران کی بداعمالیوں اور کبھی دیگر اعلیٰ اداروں کے افراد کی بددیانتی کی بناء پر فروغ پارہا ہے۔ ادھر کچھ عرصہ سے یہ رویہ اس قدر قوی ہوگیا ہے کہ تمام سماجی رویوں کو متاثر کرنے لگا ہے، اس کی بدترین مثال دہشت گردی کے نام پر سرکاری ایجنسیوں کی کارروائیاں ہیں، جن کا نشانہ بطور خاص ملک کی سب سے بڑی اقلیت بنی ہوئی ہے۔ ہماری حکومتوں کی اس عادت بد نے کہ وہ ملک کے دستور، اس کے سیکولر نظام، اور قانون و انصاف کی بجائے بیرونی طاقتوں کے چشم و ابرو کو دیکھتی ہیں، صورت حال کو مزید سنگین بنادیا ہے کہ دہشت گردی کے عنوان سے پوری قوم مسلم کو مشکوک ومشتبہ بنانے کی شرمناک اور مجرمانہ پالیسی کو بروئے کار لانے کے لئے سرکاری اہل کار سرگرم ہیں، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، شیوسینا جیسی کھلی مسلم دشمن تنظیموں کی پالیسیاں سب کو معلوم ہیں، لیکن سیکولرزم اورجمہوریت پر یقین کادعویٰ کرنے والے اور اقلیتوں کی بہی خواہی کا دم بھرنے والے جب اس سازش میں ملوث ہوجائیں تو یقینا ہم کو زیادہ چوکنا ہونا پڑے گا، اور از سر نو اپنے طرز فکر کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔

          ملک میں قائم دینی مدارس صرف علم دین ہی کے محافظ نہیں بلکہ انسانیت، اخلاق، تہذیب و شرافت، حب الوطنی اور وفاداری کے مضبوط قلعے ہیں، یہی ایثار و قربانی کے وہ مراکز ہیں جہاں سے جہاد آزادی کی تحریک کو اصل سرمایہ ملا۔

          شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، سید احمد شہید بریلوی، مولانا محمد اسماعیل شہید، مولانا عبدالحئی بڈھانوی،مولانا محمد جعفر تھانیسری، مولانا سید نصیرالدین دہلوی، مولانا ولایت علی صادق پوری، مولانا عنایت علی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا احمد اللہ شاہ، مولانا سرفراز علی گورکھپوری، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا عبدالقادر لدھیانوی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، حاجی امداد اللہ تھانوی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی، مولانا محمود حسن شیخ الہند، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا سید حسین احمد مدنی شیخ الاسلام، مولانا معین الدین اجمیری، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد بہاری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد شاہد ناصری، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، وغیرہ مجاہدین آزادی جن کی فہرست بڑی طویل ہے، انھیں دینی مدارس کے ساختہ پرداختہ تھے، جنھوں نے نہ صرف انگریزوں سے مقابلہ کیا بلکہ دوسروں کے اندر بھی اس کا جذبہ پیدا کیا، ملک عزیز کے لئے خود تڑپے اور دوسروں کو بھی تڑپایا، ملک کی عزت و آزادی کی خاطر ہر قربانی دی، اور دوسروں کو قربانی کا حوصلہ بخشا۔

          یہ مدرسے صدیوں سے قائم ہیں، حکومتیںآ ئیں اور چلی گئیں، بساط سیاست بچھی اور لپیٹ دی گئی، لیکن حق و صداقت اور انسانیت و شرافت کے یہ قلعے محفوظ رہے، اور انشاء اللہ آئندہ بھی محفوظ رہیں گے۔

          اب اگر انھیں مدارس کو دہشت گردوں کا اڈہ بتایاجائے گا، ان پر قدغن لگانے کے لئے ان کی فہرست تیار کرائی جائے گی، ان سے منسلک طلبہ وعلماء کو بیجا طور پر پریشان کیاجائے گا اور بغیرکسی معتبرثبوت کے انھیں دہشت گردی کا مجرم ٹھہرایاجائے گا تو یہ قانون وانصاف کے خلاف ایسا گھناؤنا اور بدترین جرم ہوگا جسے کسی طرح برداشت نہیں کیا جائے گا، ان مدرسوں کے طلبہ کی شرافت، انسانیت اور بلند اخلاق کا اعتراف ہرضلع اور شہر کے حکام کو ہے، ان مدارس کا کوئی طالب علم نہ بسوں کے شیشے توڑتا ہے، نہ ریلوں کی چین پلنگ کرتا ہے، نہ پتھرچلاتا ہے نہ کسی پر بیجا ہاتھ اٹھاتا ہے، نہ اس نے کسی مندر کو توڑا، نہ دھرم شالہ کو، اس نے احتجاج اور مظاہروں کے عام طریقوں کو بھی اختیار نہ کیا پھر بھی اس پر الزام تراشی، اس کو بدنام کرنے اور قومی مجرم بنانے کی سازش حکومت اور اس کے اہل کاروں کا مجرمانہ کردار اور بجائے خود ایک دہشت گردانہ کارروائی ہے۔ کیا حکومت کے ذمہ داروں کو ملک میں لاکھوں نہتے، اور بے گناہ مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم کرنے والے مجرم دکھائی نہیں دیتے، کیا انہیں بابری مسجد شہید کرنے والوں کی دہشت گردی اور درندگی نظر نہیں آتی، دہشت گردوں کو تلاش کرنا ہے تو کورٹ سے ان مجرموں کی فہرست طلب کی جائے جنھوں نے گجرات جیسے پرامن صوبہ میں بربریت اور شفاکیت کا ایسا ننگاناچ کیاجس سے چنگیز اور ہٹلر کی روحیں بھی شرمشار ہوے بغیر نہیں رہ سکی ہوں گی۔ دہشت گردوں کو تلاش کرنا ہے تو آرایس، ایس، وشوہندوپریشد اور شیوسینا کے اداروں میں تلاش کیاجائے، اور کیا بعید ہے کہ دہشت گرد خود انتظامیہ میں چھپے ہوں، اس لیے اگر واقعی ملک سے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اہل اقتدار سنجیدہ ہیں تو انھیں صرف ایک خاص فرقہ پر نظر مرکوز کرنے کے بجائے گردوپیش پر بھی نظر ڈالنی چاہیے، اس لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنی دہشت گردی کا سبق پرامن شہریوں کو نہ پڑھائیے ورنہ اس رویہ سے نہ صرف ملک کا امن وامان تباہ ہوگا؛ بلکہ سیاست کے ایوانوں میں عیش وعشرت کی زندگی گذارنے والوں کا چین وسکون بھی غارت ہوجائے گا اور جس کرسی کے نشہ میں آج بے گناہوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اس کرسی سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔

دنیا ہے اس کی شاہد اس شہر بے اماں نے

جس میں میں انا سمائی وہ سر کچل دیا ہے

***

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4 ‏، جلد: 97 ‏، جمادی الثانیہ 1434 ہجری مطابق اپریل 2013ء